احمد لدھیانوی کو فاتح قرار دے دیا گیا

  • عنبر شمسی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
جھنگ میں فرقہ واریت سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے
،تصویر کا کیپشن

جھنگ میں فرقہ واریت سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے

پاکستان کے صوبے پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے نواسی کے متنازع نتائج پر ایک الیکشن ٹربیونل نے پاکستان مسلم لیگ نون کے رکن شیخ محمد اکرم کا انتخاب کالعدم قرار دے کر اہلسنت والجماعت کے سربراہ احمد لدھیانوی کو فاتح قرار دیا ہے۔

تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کہنا ہے کہ اسے فیصلے کا کوئی نوٹفیکیشن موصول نہیں ہوا ہے۔

مئی 2013 کے انتخابات کے دوران فرقہ ورانہ جماعت اہلِسنت والجماعت کے کئی امیدواروں نے انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا جس میں جماعت کے سربراہ احمد لدھیانوی نے جماعت کے گڑھ جھنگ کی قومی اسمبلی کی نشست 89 سے الیکش میں حصہ لیا تھا۔

ان کے مرکزی حریف مسلم لیگ نون کے امیدوار شیخ محمد اکرم تھے۔

شیخ وقاص اکرم نے الیکشن ٹرائبیونل کے فیصلے پر بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ملک کی انتخابی تاریخ کا انوکھا فیصلہ ہے۔

تاہم اہلسنت والجماعت نے نتائج پر سوال اٹھائے اور اس الیکشن ٹرایبونل کےسامنے چیلنج کرتے ہویے الیکشن کمیشن سے فیصلے کے لیے درخواست دی۔

جس کی تفتیش کےلیےایک رکنی الیکشن ٹربیونل قائم کیاگیا۔ اس وقت اہلسنت والجماعت نے نتائج کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ جماعت کا دعوی تھا کہ اس شکست میں بین القوامی طاقتوں کا ہاتھ تھا۔

جماعت کے ترجمان حافظ انیب فاروقی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ووٹوں کے حساب سے مولانا لدھیانوی کو فتح حاصل ہوئی تھی۔

’جب انتخابات ہوئے تھے تو بڑے پیمنانے پر ہمیں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ پھر راتوں رات فیصلہ تبدیل ہوا۔ ہمیں گہری تشویش تھی کہ لدھیانوی کو پارلیمان میں جانے سے سازش کے طور پر روکا گیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ دھاندلی کے علاوہ ان کی جماعت نے ٹرائبیونل کے سامنے شیخ محمد اکرم کے خلاف کئی ثبوت اکھٹے کر کے فراہم کئے تھے۔

خیال رہے کہ سپاہ صحابہ پاکستان کو 2002 میں کالعدم تنظیم قرار دیا گیا تھا، جس کے بعد یہ نئے نام اہلسنت والجماعت کے ساتھ سامنے آئی تھی۔ اہلسنت والجماعت اس وقت حکومتِ پاکستان کی واچ لسٹ پر موجود ہے۔

حافظ انیب فاروقی کا کہنا تھا کہ احمد لدھیانوی نے بعض مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر متحدہ دینی محاذ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ اس اتحاد کی سربراہی جمعیت علمائے اسلام کے رہنما سمیع الحق کر رہے تھے۔

’اہلسنت والجماعت پر پابندیوں اور دیگر معاملات کی وجہ سے جماعت کے سربراہ متحدہ دینی محاذ کے پلیٹ فارم سے کھڑے ہوئے تھے۔‘

انگریزی روزنامہ ڈان کے پنجاب کے مدیر اشعر رحمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ حال ہی میں پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد کے اضافے کے مدِ نظر الیکشن ٹرائبیونل کا یہ فیصلہ خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سےاہلسنت والجماعت کو تقویت حاصل ہو گی اور وہ اسے اپنی مقبولیت کے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ایسی تنظیموں پر پابندیاں تو دکھاوے کے لیے ہوتی ہیں۔

’وہ پھر کسی اور شکل یا نام سے ابھر کر آجاتی ہیں۔ اصل میں تو انہیں سیاسی طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے، مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو برادری کی بنیاد پر کرتے ہیں، جیسے نون لیگ کے شیخ وقاص اکرم ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جھنگ ایسی مثال ہے کہ جہاں ایسا لگتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہبی جماعتوں کو رعایتیں دی گئی ہیں۔‘

پاکستان اور صوبہ پنجاب میں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نون پر کئی بار الزام لگایا گیا ہے کہ انتخابات میں فتح کے لیے اہلسنت والجماعت جیسی دیگر فرقہ ورانہ مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ پسِ پردہ لین دین کرتی رہی ہے۔