جیدا جسوس عرف بابا ٹیم پیس

  • وسعت اللہ خان
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام

چِڑ ایسا پل صراط ہے جہاں اچھے اچھوں کا پیر پھسل جاتا ہے۔ چِڑ سے جان چھڑانے کا اور کوئی طریقہ نہیں کہ چِڑانے والوں کو مسلسل نظر انداز کیا جائے، سُنی ان سُنی کردی جائے، مسکرا دیا جائے۔ حتٰی کہ چھیڑنے والا ہی تھک جائے یا پھر آس پاس کے لوگ اسے ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیں مگر اتنی تپسیا کے لیے خاص سطح کی ذہانت بھی تو درکار ہے۔

اکثر لوگ ایسے سادے ہوتے ہیں کہ اپنی چِڑ خود ہی ایجاد کرلیتے ہیں۔ مثلاً میٹرک کے زمانے میں میرے دو ہم جماعت جاوید اور نعیم کے درمیان کسی بات پر گالم گلوچ اور ہاتھا پائی ہوگئی۔ نعیم تو اگلے دن تک بھول بھال گیا مگر جاوید نے بات دل میں رکھ لی اور ایک ایک لڑکے کو پکڑ پکڑ کے بتانا شروع کردیا کہ دیکھو یار کل نعیم نے سب کے سامنے مجھے جوگالیاں دیں سو دیں مگر یہ تک کہہ دیا کہ میں صرف پولیس انسپکٹر کا بیٹا ہی نہیں بلکہ پولیس کا جسوس بھی ہوں اور اس کام کے پیسے بھی لیتا ہوں۔ دیکھو یار کتنے دکھ کی بات ہے۔۔۔

سب نے جاوید سے اظہارِ ہمدردی تو کیا لیکن پورے اسکول میں وہ جیدا جسوس کہلوانے لگا۔ کوئی 35 برس بعد پچھلے ہفتے مجھے کسی صاحب کا بہت ہی تپاکیہ فون آیا۔ یار جاوید بول رہا ہوں پہچانا؟ میں نے کہا کون جاوید؟ میں تین جاویدوں کو جانتا ہوں۔ دوسری طرف سے آواز آئی ابے جیدا جسوس بول رہا ہوں نیویارک سے۔ اب پہچانا۔۔۔ بہت دیر تک جیدے سے گفتگو ہوتی رہی اور اس دوران بابا صدرو کا تذکرہ نہ آتا یہ کیسے ہوسکتا تھا۔

بابا صدرو چھوٹی نہر کے پل پر اکڑوں بیٹھا گھنٹوں حقہ گڑگڑاتا رہتا۔ کسی نے اسےکبھی کیمی گھڑی دی ہوگی جو مستقل اس کی کلائی سے بندھی رہتی۔ ہم بچے پرائمری اسکول سے آتے جاتے کبھی کبھار ٹائم پوچھ لیتے تو بابا صدرو بہت شفقت سے بتاتا۔

ایک دن ایک بچے نے وقت پوچھا تو بابا صدرو نے کہا ساڑھے بارہ بجے ہیں بیٹا۔ اتفاق سے پیچھے آنے والے ایک اور بچے نے ٹائم پوچھا تو بابا جی نے کہا برخوردار ابھی تیرے ساتھی کو بتایا تو ہے کہ ساڑھے بارہ بجے ہیں۔ عین اسی وقت بچوں کی ایک منڈلی پیچھے سے آگئی۔ بابا جی کیا ٹائم ہوا ہے؟ بابا جی کو ترارا آ گیا۔ اوئے تمہیں کیا نوکری پے جانا ہے کہ جو بھی آرہا ہے ٹیم پوچھ رہا ہے۔ ہم بچوں کو یہ دریافت بہت مزیدار لگی کہ بابا صدرو کو ٹائم پوچھنے پر غصہ بھی آتا ہے۔

اگلے دن اسکول جاتے ہوئے ہم بچے ذرا درا فاصلے سے ایک دوسرے کے پیچھے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے بابا صدرو کے سامنے سے گذرے۔

بابا جی ٹائم کیا ہوا ہے ؟

بیٹا جی آٹھ بجے ہیں۔

بابا جی کیا بجا ہے؟

یار ابھی اس بچے کو بتایا تو ہے کہ آٹھ ہوئے ہیں۔

بابا جی ٹائم تو بتاؤ؟

اوئے تم نے تو میری چڑ ہی بنا لی۔ جا دفع ہو۔ نہیں بتاتا ٹیم ۔۔

بابا جی ٹائم ؟؟؟

کھلو جا! تیری تے میں۔۔۔

اور پھر بابا صدرو رفتہ رفتہ پورے قصبے میں بابا ٹیم پیس مشہور ہوگیا۔ نوبت یہ آگئی کہ ابھی کسی کے منہ سے بابا جی پورا نکلا نہیں اور بابا جی گالیاں دیتے ہوئے پیچھے بھاگ پڑے۔ بے شرم ، بے غیرت اپنی ماں توں جا کے پچھ ، جنہیں تینوں بے ٹیم جمیا ای۔۔۔

بابا کے ساتھ ٹیم پیس کا لاحقہ ایسا چپکا کہ جب ان کا انتقال ہوا تو لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوا۔ بابا صدر الدین صاحب ٹیم پیس قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں ان کی نمازِ جنازہ بعد از عصر جامع مسجد غلہ منڈی میں ادا کی جائے گی۔۔۔

مجھے لگ رہا ہے کہ وزیرِ اعظم کے حامی گو نواز گو کو نظرانداز کرتے کرتے جس طرح اب چڑنے لگے ہیں اس کے نتیجے میں میاں صاحب رفتہ رفتہ جیدا جسوس عرف بابا ٹیم پیس بنتے جارہے ہیں۔