جنرل صاحب اپنے پیش روؤں کی تصویریں دیکھ لیں

  • محمد حنیف
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آپ فاتح جلال آباد کی تصویر پر نظر ڈالیں گے اور پوچھیں گے کہ کیا میں ایسا بننا چاہتا ہوں

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشنآپ فاتح جلال آباد کی تصویر پر نظر ڈالیں گے اور پوچھیں گے کہ کیا میں ایسا بننا چاہتا ہوں

پاکستان میں آئی ایس آئی کے ہر سربراہ کی تعیناتی کے موقعے پر امیدوں اور توقعات کا ایسا انبار لگایا جاتا ہے جیسے پرانی بادشاہتوں میں ولی عہد کی پیدائش کے موقعے پر لگتا تھا۔

کیا نحوست کے بادل اُٹھنے والے ہیں، کیا نیا راج دُلارا ایک روشن مستقبل کی نوید ہے؟

نئے آئی ایس آئی کے سربراہ کے بارے میں بھی ہمیشہ کی طرح مبارک سلامت کے نعروں کے ساتھ ہمارے موسمی دفاعی تجزیہ نگاروں نے یہ انکشاف کیا کہ نئے چیف ایک پیشہ ور فوجی ہیں۔ بھائیو اگر پیشہ ور فوجی جنرل نہیں بنے گا تو کیا عاطف اسلم یا راحت فتح علی خان کو اِس عہدے پر ترقی دی جائے گی؟

اِس کے بعد تجزیہ پیش کیا جاتا ہے کہ اِنھیں دہشت گردی سے نمٹنے کا وسیع تجربہ ہے۔ گذشتہ دس سالوں میں جِس بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہوئی اُس کے بعد پشاور سے لے کر لیاری تک ہر بچے کو دہشت گردی سہنے کا اور اُس سے نمٹنے کا کچھ تجربہ تو ہو ہی چکا ہے۔

ہر نئے چیف کے خیرخواہ ہمیں یہ یقین بھی دلاتے ہیں کہ جناب بالکل غیر سیاسی ہیں اور اِس امید کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ وُہ خود کو سیاست سے دور رکھیں گے۔

اِن تجزیہ نگاروں سے مودبانہ گزارش ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دینا ایسا ہی ہے جیسے پوپ سے کہا جائے کہ وہ مذہب سے پرہیز کریں، شاہد آفریدی سے توقع رکھی جائے کہ وہ کبھی بلا نہ گھمائے اور کسی پیشہ ور باکسر کو مشورہ دیا جائے کہ وہ کچھ بھی کرے، مار پیٹ نہ کیا کرے۔

راقم کا نئے چیف کے لیے اِس لیے صرف ایک مشورہ ہے کہ وہ کسی میرے جیسے صحافی بھائی، کسی پارٹ ٹائم دانشور اور کسی اُبھرتے ہوئے دفاعی تجزیہ نگار یا کسی بزرگ ستارہ شناس کا مشورہ نہ مانے۔ اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ وہ کچھ وقت اپنے نئے دفتر میں تنہا گزاریں اور دیوار پہ لگی اپنے سے پہلے والے ساتھیوں کی تصویریں دیکھیں، پھر اُن کے کارہائے نمایاں پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ آپ اُن میں سے کس کے نقش قدم پر چلنا پسند کریں گے۔

سب سے پہلی تصویر آپ کے پیش رو جنرل ظہیر الاسلام کی ہو گی۔ وُہ بھی یقیناً ایک پیشہ ور سپاہی تھے جنھیں آپ کی طرح سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اِنٹیلی جنس کے میدان میں تو اُن کی کامیابیاں یقیناً خفیہ ہی رہیں گی لیکن قوم کے سامنے اُن کا سب سے بڑا معرکہ وہ تھا جِس میں اُنھوں نے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو چِت کیا اور کبھی لوگوں کو یہ بھی لگا کہ جنرل ظہیر اصل میں پیار کے بھوکے ہیں۔

اِسی لیے تو اُن کے چاہنے والوں نے کتنے جلوس نکالے جِس میں صرف ایک ہی نعرہ لگتا تھا کہ ہمیں آئی ایس آئی اور اس کے چیف سے پیار ہے۔

اُن سے ذرا آگے نظر ڈالیں توجنرل پاشا کی تصویر نظر آئے گی۔ اُن کا سیاست میں عدم دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ امریکہ میں اگر کِسی منصور اعجاز نامی شخص نے سرگوشی کی تو وہ بھاگے بھاگے ثبوت جمع کرنے پہنچ جاتے تھے۔

کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ اُنھیں سیاست سے تو کیا اِنٹیلی جنس میں بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اُن کی واچ میں امریکی فوجی رات کے اندھیرے میں پاکستان کی سرحدوں میں گھس کر اسامہ بن لادن کو ہلاک کر کے لاش اٹھا کر لے گئے، اُنھیں کسی نے فون کر کے بتایا۔ اِس سے زیادہ اُن کی معصومیت کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔

اُنھوں نے تو پارلیمنٹ کے اِجلاس میں اِستعفیٰ دینے کی بھی پیش کش کر دی وہ تو ہمارے منتخب نمائندوں نے انھیں سمجھایا کہ بھولے باشاہوں ہمیں پتہ ہے کہ آپ کو تو اِن کاموں میں دلچسپی ہے ہی نہیں۔ جنرل پاشا کا بھی بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اُنھوں نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کی چھٹی کرا دی۔ لیکن چونکہ دونوں قابل آدمی ہیں حقانی صاحب نے امریکہ میں نوکری پکڑ لی اور پاشا صاحب سُنا ہے دُبئی کے شہزادوں کو سِکھاتے ہیں کہ سیاست سے دور کیسے رہا جائے۔

آپ کے سامنے جنرل کیانی کی مثال شاید سب سے زیادہ شاندار ہے۔ چیف رہے اور بار بار رہے۔ اب اُن کے پرانے ساتھی کہتے ہیں اُنھیں بھی نہیں پتہ کہ وہ اِتنے سال کیا کرتے رہے سوائے سگریٹ کے کش لینے کے اور یہ بڑبڑانے کے کہ ’ابھی وقت نہیں آیا۔‘ آج کل سُنا ہے راتیں بزرگ صحافیوں کے ساتھ گزارتے ہیں اور اُردو نثر کے زوال کے بارے میں پریشان رہتے ہیں۔

اور ہاں بیچ میں اِیک انتہائی پیشہ ور جنرل ندیم تاج بھی آ گے تھے۔ اُنھوں نے نہ کسی قانون کو، نہ کِسی آئین کو، نہ کسی جج کو اور نہ عدالت کو رستے میں آنے دیا اور اپنے باس جنرل پرویز مشرف کو دوبارہ صدر منتخب کروا کے ہی رہے۔ اور اب یہ علیحدہ بات ہے کہ جنرل مشرف کراچی کی جنرلز کالونی کے پہلے قیدی ہیں۔ خدا جانے اپنے پیشہ ور ساتھی جنرل ندیم تاج کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے۔

اُس سے پہلے جنرل محمود ہوا کرتے تھے جو جنرل مشرف کو چیف ایگزیکٹیو بنوا کر باقی عمر پچھتاتے رہے۔

سویلین ہونے کے ناطے سے ہم یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جنرل ضیا الدین بٹ کی تصویر سابق آئی ایس آئی کی سربراہان کی تصویروں میں موجود ہے کہ نہیں۔ ہونی تو چاہیے کیونکہ وہ آئی ایس آئی کے چیف تو تھے لیکن اِتنے معصوم کہ فوج کے سربراہ کے پھول بھی پہن لیے لیکن کوئی اُن کی بات مان کے نہ دیا۔

باقی تصویریں آپ خود دیکھیں اور ریکارڈ بھی چیک کر لیں ایک پروفیشنل جنرل جاوید ناصر ہوتے تھے اُنھوں نے ریٹائرڈ ہونے کے بعد کیمروں کو حرام قرار دے کر تصویر بنوانے سے انکار کر دیا تھا۔ ہو سکتا ہے اُن کی یاد میں ایک خالی فریم لٹکا ہوا ہو۔

سب سے نمایاں تصویر جنرل حمید گل کی ہو گی۔ وہ جنرلوں کے جنرل ہیں اور جاسوسوں کے جاسوس۔ آج سے 26 سال پہلے وہ آئی ایس آئی کے اِنتہائی پیشہ ور چیف تھے۔ اُن کے ہوتے ہوئے فوج کے سربراہ اور ملک کے صدر جنرل ضیا الحق اپنے درجن کے قریب ساتھی سینیئر فوجیوں کے ساتھ ایک طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوئے۔ نہ کوئی ملزم ، نہ کوئی مقدمہ، جنرل حمید گل کی پیشہ وری پر جُوں تک نہ رینگی۔

سنہ 1989 میں جنرل حمید گل یہ نوید دے کر نکلے کہ بس ابھی گیا اور جلال آباد پر جھنڈا لہرا کر واپس آیا۔ جو بچے اُس وقت پیدا ہوئے تھے اُن کے بالوں میں اب سفیدی آ چکی ہے لیکن ہماری فوج اور دانشوروں کا ایک طبقہ ابھی بھی جلال آباد پر جھنڈا لہرانے کا خواب دیکھتا ہے۔

امید ہے ہر نیا دن شروع کرنے سے پہلے آپ فاتح جلال آباد کی تصویر پر نظر ڈالیں گے اور پوچھیں گے کہ کیا میں ایسا بننا چاہتا ہوں؟