انتخابی ’دھاندلی‘ کی تعریف پر اختلاف

  • آصف فاروقی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
حکومت اور پی ٹی آئی کے وفود کے درمیان مذاکرات کے ایک درجن سے زائد دور ہو چکے ہیں

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنحکومت اور پی ٹی آئی کے وفود کے درمیان مذاکرات کے ایک درجن سے زائد دور ہو چکے ہیں

پاکستان تحریکِ انصاف کا احتجاجی دھرنا ختم کروانے کے لیے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوران انتخابی ’دھاندلی‘ کی نئی تعریف کرنے کی کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

اس نکتے پر ہونے والے مذاکرات سے باخبر حکومتی اور پی ٹی آئی کے سینئیر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فریقِ مخالف ’دھاندلی‘ کی ان کی تعریف کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے اس نکتے پر مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو پا رہی ہے۔

آئینی اور قانونی ماہرین انتخابی ’دھاندلی‘ کو نئے سرے سے متعین کرنے کے اصول ہی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر قانون میں ترمیم کر کے ’دھاندلی‘ کی نئی تعریف کر بھی دی جائے تو اسے ماضی سے نافذ العمل قرار دینا زیادتی ہوگی۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے وفود کے درمیان مذاکرات کے ایک درجن سے زائد دور ہو چکے ہیں۔

ان میں سے آخری چند ملاقاتوں میں بیشتر وقت گذشتہ عام انتخابات میں بے ضابطگیوں، جنھیں تحریکِ انصاف ’رگنگ یا دھاندلی‘ قرار دینے پر مصر ہے، کے ایک نکتے پر صرف کیا گیا ہے۔

تحریکِ انصاف کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ مشاورت میں شریک، وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف انتخابی بے ضابطگی یا دھاندلی کی اپنی طے شدہ تعریف مسلط کرنا چاہتی ہے۔

’عوامی نمائندگی کے قانون میں ہر بات تفصیل سے پہلے ہی درج ہے کہ انتخابی بے ضابطگی کیا ہے اور اس کی سزا کیا ہے۔ اب وہ (تحریکِ انصاف کے مذاکرات کار) کہتے ہیں کہ دھاندلی کی بھی نئی تعریف کرو اور اسے راتوں رات آرڈیننس کے ذریعے نافذ بھی کرو۔‘

تحریکِ انصاف کی قیادت نے ان مذاکرات کے دوران حکومت کو تحریری طور پر بتایا ہے کہ نادرا کی جانب سے انگوٹھے شناخت نہ کیے جانے کو بھی دھاندلی تصور کیا جائے۔ اس کے علاوہ مقناطیسی سیاہی کا عدم استعمال بھی دھاندلی قرار دیا جائے۔

تحریکِ انصاف کا مؤقف ہے کہ گذشتہ عام انتخابات کے دوران کسی بھی قسم کی بے ضابطگی چاہے وہ الیکشن کمیشن کے اہلکار سے سرزد ہوئی ہو یا کسی اور سرکاری اور غیر سرکاری افراد سے اس کا ذمہ دار اس حلقے سے جیتنے والے امیدوار پر عائد کی جائے اور اسے دھاندلی کے الزام میں سزا دی جائے۔

تحریکِ انصاف کے سینیئر رہنما شفقت محمود کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔

’انتخابات سے پہلے تقرریاں اور تبادلے، الیکشن کمیشن میں کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ پھر الیکشن کے فوراً بعد رات کو کیا ہوا، تقاریر کیوں اور کیسے ہوئیں، ان تقاریر کے بعد کیا ہوا، کیا بیرونی عوامل نے دھاندلی کروائی یا نہیں۔ اگر آپ نے یہ جانچنا ہے کہ الیکشن درست ہوا یا نہیں تو آپ کو یہ سب چیزیں کرنا پڑیں گی۔‘

تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ ان سب ’بے ضابطگیوں‘ کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لیے ’دھاندلی‘ کی نئی تعریف کرنا ہوگی اور اس کے لیے ماضی سے نافذ ہونے والے نئے قانون بنانا ہوں گے۔

بعض قانونی ماہر اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ سابق وزیر قانون افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قانون میں انتخابی عمل کے دوران، اس سے پہلے اور بعد میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا بہت تفصیل کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے ۔

’انتخابی عمل کے دوران دھاندلی کا تو بہت تفصیل کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے۔ میری نظر میں تو قانونی طور پر اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ کسی بھی قسم کی ’دھاندلی‘ اس قانون سے بچ نہیں سکتی۔ بیلٹ پیپر میں ہیر پھیر، غلط ووٹ ڈلوانے کی کوشش، بے نام ووٹ۔ یہ ساری باتیں کورڈ ہیں۔‘

تحریکِ انصاف کی جانب سے انتخابی ’دھاندلی‘ کے لیے نئے قانون ماضی سے نافذ کرنے کا مطالبہ بھی ماہرین کے لیے حیرت کا باعث بن رہا ہے۔

افتخار گیلانی کہتے ہیں کہ قانونی طور پر یہ ممکن ہے کہ نیا قانون بنے اور اسے ماضی سے نافذ کر دیا جائے لیکن ایسا کرنے کا خاص طور پر گزشتہ انتخابی عمل کے بارے میں اخلاقی جواز نہیں ہے۔

’دس سال پہلے جب سگریٹ پینا جرم نہیں تھا کسی نے سگریٹ پیا تو اسے آج سگریٹ نوشی کے خلاف قانون بنا کر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت اس طرح کے قانون کو اڑا کر رکھ دے گی۔ اسی طرح گذشتہ انتخاب کے بارے میں قانون بنایا تو جا سکتا ہے لیکن ایک قانون کے طالب علم کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون ناجائز ہو گا اور اسے عدالت کالعدم قرار دے سکتی ہے۔‘