کرُم ایجنسی میں پھر جنگ بندی

کرم ایجنسی
،تصویر کا کیپشنفریقین نے جنگ زدرہ علاقوں میں اپنے اپنے مورچے خالی کرکے سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیے ہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقےکرم ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ قبائلی جرگہ کی کوششوں سے شیعہ اور سنی قبائل کے مابین عارضی فائر بندی طے پا گئی ہے جس سے علاقے میں چھ دن سے جاری جھڑپوں کا سلسلہ روک گیا ہے۔

فریقین نے جنگ زدرہ علاقوں میں اپنے اپنے مورچے خالی کر کے سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیے ہیں۔

کرم ایجنسی کے ایک پولیٹکل اہلکار نے ہمارے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ بدھ کو صدر مقام پارہ چنار اور لوئر کرم کے علاقے صدہ میں شیعہ اور سنی قبائل کے الگ الگ جرگے منعقد ہوئے جس میں متحارب قبائل نے عارضی فائر بندی پر رضا مندی ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں حکومت کی طرف سے جنگ بندی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ فائر بندی کے اعلان کے ساتھ ہی فریقین نے لوئر کرم کے علاقوں بالش خیل اور خوارکلی میں اپنے اپنے مورچے خالی کر کے سکیورٹی فورسز کے حوالے کردیے اور اب وہاں فوج اور فرنٹیر کور کے اہلکار تعینات ہیں۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ فائر بندی کے اعلان کے بعد بھی علاقے میں اکا دکا جھڑپیں جارہیں تاہم بدھ کی صبح سے مکمل خاموشی ہے اور علاقے میں معاملات زندگی بھی رفتہ رفتہ بحال ہورہے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس اعلان سے دو دن پہلے صدہ سب ڈویژن کے چھ قبائل نے علاقے میں یکہ طرفہ فائر بندی پر رضامندی ظاہر کردی تھی جس سے امن کی بحالی کےلیے راہیں ہموار ہوگئی تھی۔

تقریباً ایک ہفتہ قبل لوئر کرم ایجنسی کے علاقوں بالش خیل اور خوارکلی میں آباد شعیہ اور سنی قبائل کے مابین فرقہ وارانہ جھڑپوں کا اغاز ہوا تھا۔لڑائی نے اس وقت شدت اختیار کرلی جب اس کا دائرہ دیگر علاقوں تک پھیلنا شروع ہوا اور جس سے پوری ایجنسی میں شدید کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی تھی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان جھڑپوں میں کم سے کم پندرہ افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہوئے ۔ کرم ایجنسی میں پچھلے کئی سالوں سے فرقہ وارانہ تشدد کی کاروائیاں جاری ہیں جس سے علاقے میں ہر وقت ایک شدید کشیدگی کی صورتحال رہتی ہے۔

کشیدگی کی وجہ سے ٹل پارہ چنار شاہراہ گزشتہ تین سالوں سے عام ٹریفک کےلیے بند ہے جس سے ایجنسی میں بدستور ایک بحران کی کفیت برقرار ہے۔ لڑائی کے باعث پارہ چنار اور دیگر علاقوں سے تین سال پہلے بے گھر ہونے والے افراد بھی بدستور دور دراز علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کرم ایجنسی میں حکومت کی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔